تحریر: امداد علی گھلو
حوزہ نیوز ایجنسی | حالیہ دنوں میں حزب اللہ لبنان کی کاروائیوں نے اسرائیل اور اس کے حامیوں میں شدید حیرت و اضطراب پیدا کر دیا ہے۔ حزب اللہ نے اسرائیل کی سرزمین میں جس مؤثر انداز میں کاروائیاں کی ہیں، اس سے صرف خطے کے عوام ہی نہیں، بلکہ واشنگٹن میں امریکی حُکام اور تجزیہ کار بھی حیران ہیں؛ امریکی وزارتِ خارجہ کے ماہرین اور تجزیہ نگاروں کی یہ حیرت، حزب اللہ کی طاقت اور حکمت عملی کی کامیابی کو ظاہر کرتی ہے۔
اسرائیل کی عسکری طاقت اور جدید ٹیکنالوجی کے باوجود، حزب اللہ کی کاروائیوں نے ثابت کر دیا ہے کہ اس تنظیم کے پاس نہ صرف حوصلہ، ہمت اور عزم ہے بلکہ لڑائی لڑنے کیلئے بھی ایک پیچیدہ اور مضبوط سسٹم موجود ہے۔ حزب اللہ کی یہ کاروائیاں اسرائیل کی سرحدوں کے اندر تک پہنچ چکی ہیں، جس نے اسرائیلی حُکام کو شدید پریشانی میں مبتلا کر دیا ہے۔
یہ حقیقت کہ حزب اللہ نے اسرائیل حدود میں اس قدر اندرونی رسائی حاصل کی ہے، امریکی و دیگر تجزیہ کاروں اور ماہرین کو اس کے عسکری ڈھانچے اور آپریشنل حکمت عملیوں پر نظر ثانی کرنے پر مجبور کر رہی ہے۔ امریکی ماہرین اس بات پر حیرت زدہ ہیں کہ حزب اللہ کس طرح اسرائیل کی جدید دفاعی لائنز کو عبور کر کے کامیاب حملے کر رہی ہے۔ اس سے خطے میں حزب اللہ کی طاقت اور اثر و رسوخ کا اندازہ ہوتا ہے۔
حزب اللہ کی ان شاندار کاروائیوں نے اس بات کو ثابت کیا ہے کہ وہ محض ایک مقاومتی گروہ نہیں بلکہ ایک ایسی تنظیم ہے جس کے پاس اسرائیل کی جارحیت کا جواب دینے کی مکمل صلاحیت ہے۔ حزب اللہ کی ان کاروائیوں نے ثابت کر دیا ہے کہ اسرائیل جیسے طاقتور ناسور کی بھی دفاعی لائنز کو عبور کیا جا سکتا ہے، اور اس کا غرور توڑا جا سکتا ہے۔
یہ صورتحال پورے خطے کے لیے ایک اہم پیغام ہے کہ جدید اسلحہ اور جنگی ہتھیاروں سے زیادہ طاقتور وہ عزم اور جذبہ ہے جو کسی قوم کو ناقابل تسخیر بنا دیتا ہے۔ حزب اللہ نے اپنی مقاومتی حکمت عملی اور مقامی حمایت کے ذریعے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اسے شکست دینا ممکن نہیں۔ اس وقت امریکی ماہرین، اسرائیل کی دفاعی ناکامیوں اور حزب اللہ کی طاقت پر تجزیے کر رہے ہیں اور اس صورتحال میں امریکی اور اسرائیلی اتحاد کو نئے چیلنجز کا سامنا ہے۔
لہذا، حزب اللہ کی کاروائیاں نہ صرف اسرائیل بلکہ امریکہ کے لیے بھی ایک انتباہ ہیں کہ مشرق وسطیٰ میں طاقت کا توازن بدل چکا ہے۔ حزب اللہ نے اپنی طاقت اور عزم سے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اسرائیل کے لیے لبنان کی سرزمین میں مداخلت اب ایک مہنگا اور خطرناک سودا بن چکا ہے۔ یہ معرکہ اس بات کی گواہی ہے کہ جب ایک قوم اپنے حقوق کے لیے کھڑی ہو جاتی ہے، تو کوئی بھی عسکری طاقت اس کے سامنے زیادہ دیر نہیں ٹھہر سکتی۔
حزب اللہ کی ان کاروائیوں نے خطے میں طاقت کے توازن کو مزید پیچیدہ کر دیا ہے۔ اسرائیل اور امریکہ کی مسلسل کوششوں کے باوجود، حزب اللہ نے جس مضبوطی سے اپنے نظریے اور مقامی حمایت کو استعمال کیا ہے، وہ اس خطے میں ایک نئی طاقت کا مظہر بن چکی ہے۔ حزب اللہ کی یہ بڑھتی ہوئی مقاومت نہ صرف خطے میں اسرائیل کے عسکری منصوبوں کے لیے ایک رکاوٹ ہے بلکہ یہ بین الاقوامی سطح پر اسرائیل کے حامیوں کے لیے بھی ایک چیلنج بن چکی ہے۔
اسرائیل کے اندر حزب اللہ کی بڑھتی ہوئی کاروائیاں، امریکی پالیسی سازوں کے لیے ایک غیر متوقع چیلنج کی حیثیت رکھتی ہیں۔ امریکہ اور اسرائیل کے طویل المدتی تعلقات اور اسٹریٹجک اتحاد کی نوعیت اس وقت بظاہر حزب اللہ کی مقاومتی حکمت عملیوں کے آگے مشکلات کا شکار ہو رہی ہے۔ امریکی پالیسی ساز اب سوچنے پر مجبور ہیں کہ کس طرح حزب اللہ کی حکمت عملیوں کا مقابلہ کیا جائے جو کہ اسرائیل کی دفاعی لائنوں کو مسلسل چیلنج کر رہی ہیں۔
حزب اللہ کی مقاومت نے نہ صرف اسرائیل بلکہ دیگر علاقائی طاقتوں کو بھی سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اس تنظیم کی عسکری صلاحیت اور مقامی آبادی کے اندر اس کی حمایت نے اسے ایک ایسی طاقت بنا دیا ہے جس کا توڑ ممکن نظر نہیں آتا۔ اسرائیل کے داخلی اور خارجی دفاعی منصوبے جس طرح سے بار بار حزب اللہ کے سامنے بے بس نظر آ رہے ہیں، وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ حزب اللہ نے اپنی جگہ ایک ناقابل تسخیر مقام حاصل کر لیا ہے۔
مشرق وسطیٰ میں جاری اس کشمکش میں حزب اللہ کا کردار خطے کے دیگر ممالک کے لیے ایک سبق بھی ہے کہ کسی قوم کا عزم، اتحاد اور اپنے حقوق کی پاسداری کیسے بڑے طاقتور ممالک کی توقعات کو شکست دے سکتی ہے۔ حزب اللہ کا یہ عزم، خطے میں ہر اس قوم کو ایک پیغام دیتا ہے جو اپنے حقوق اور خودمختاری کے لیے سرگرم ہیں کہ مقاومت ہی وہ راستہ ہے جو کسی بھی بیرونی جارحیت کے سامنے مضبوط دفاع فراہم کر سکتا ہے۔